واقعہ معراج کے اعتقادی پہلو

واقعہ معراج کائنات کا ایک منفرد و بے مثال واقعہ ہے۔ اس طرح کا واقعہ نا کبھی ہوا تھا نہ کبھی ہوگا۔ قادر مطلق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے محبوب بندہ ـ‘رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے مختصر سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ، ساتوں آسمان، جنت و دوزخ وغیرہ کی سیر کرائی اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔ واقعہ معراج اپنے اندر کئی خصوصیات رکھتا ہے‘ اور ہمارے لئے اس واقعہ میں ہمہ اقسام پہلو ملتے ہیں۔ ذیل میں واقعہ معراج سے حاصل ہونے والے اعتقادی پہلوئوں میں سے چند کو واضح کرنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے۔

سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سید الملائکہ سے افضل: روایت میں آتا ہے کہ شب معراج حضرت جبرئیل، حضرت اسرافیل، حضرت میکائیل علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام براق کی لگام تھام لئے، حضرت میکائیل رکاب پکڑے اور حضرت اسرافیل حاشیہ بردار رہے۔ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کرنے میں تامل ہورہا تھا اور فکر ہورہی تھی کہ کس انداز سے بیدار کروں۔ تو مجھے حکم ہوا کہ اپنے چہرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک کے تلوئے اقدس پر مس کرو۔ جب میں نے اپنے چہرہ کو پائے مبارک پر مس کیا تو کافور کی ٹھنڈک، حرار ت کے ساتھ ملی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب استراحت سے بیدار ہوئے۔ اس وقت مجھے کافور سے اپنے پیدا کئے جانے کی حکمت معلوم ہوئی۔ (معارج النبوۃ)۔ ان روایتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سید الملائکہ سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ اعلیٰ و افضل ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں حضرت جبرائیل کو آسمان میں اپنا وزیر قرار دیا:

عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیْ ؓ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَا مِنْ نَّبِیِّ اِلَّا لَہٗ وَزِیْرَانِ مِنْ أَھْلِ السَّمَائِ وَوَزِیْرَانِ مِنْ أَھْلِ الْأَرْضِ، فَأَمَّا وَزِیْرَایَ مِنْ أَھْلِ السَّمائِ فَجِبْرِیْلُ وَ مِیْکَائِیْلُ، وَأَمَّا وَزِیْرَایَ مِنْ أَھْلِ الْأَرْضِ فَأَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمْرُ۔(رواہ الترمذی،کتاب المناقب)

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم  ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ سو آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرئیل و میکائیل (علیھماالسلام) ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنھما) ہیں۔

ٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبرئیل امین سے افضل ہونا اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل کیلئے بھی رسول ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَائِ بِسِتٍّ أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَ أُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَھُوْرًا وَ مَسْجِدًا وَ أُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَ خُتِمَ بِيَ النَّبِیُّوْنَ۔(رواہ مسلم،کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ)

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا: مجھے انبیاء پر چھ چیزوں کے ذریعہ فضیلت دی گئی : مجھے جوامع الکلم (مختصر الفاظ میں کثیر معنی) عطا کئے گئے، رعب (ودبدبہ) کے ذریعہ میری مدد کی گئی ، میرے لئے مال غنیمت حلال کئے گئے ، (ساری) زمین میرے لئے (تیمم کی صورت میں) پاک کرنے والی اور سجدہ گاہ بنادی گئی، اور مجھ کو ساری مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر انبیاء کا اختتام کردیا گیا۔

جانور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو جانتے ہیں:واقعہ معراج میں مذکور ہے کہ جب سفر معراج کیلئے براق کو لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے تو وہ ناز و طرب اور افتخار کے باعث شوخی کرنے لگا۔(مدارج النبوۃ، صفحہ 250)۔ اس بات سے یہ عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے :  عن عائشۃ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان فی نفر من المھاجرین والأنصار فجاء بعیر فسجد لہ فقال أصحابہ یا رسول اللہ تسجد لک البھائم والشجر فنحن أحق أن نسجد لک فقال اعبدوا ربکم وأکرموا أخاکم ولو کنت آمرا أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجھا ولو أمرھا أن تنقل من جبل اصفر ألی جبل أسود ومن جبل أسود ألی جبل أبیض کان ینبغی لھا أن تفعلہ ( مسند أحمد۔ باقی مسند الأنصار )

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ حضور رسول اللہ ﷺ مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ایک اونٹ آیا اور آپ  ﷺ کو سجدہ کیا‘ آپ ﷺ کے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کو چوپائے اور درخت سجدہ کرتے ہیں ہم (انسان ) زیادہ حقدار ہیں کہ آپکو سجدہ کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو اپنے (مؤمن ) بھائیوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ ‘ اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بالضرور ومیں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے‘(شوہر کا مرتبہ تو یہ ہیکہ )اگر وہ اسکو حکم دے کہ زرد پہاڑ سے (پتھر ) کالے پہاڑ پر لے جائے اور کالے پہاڑ سے سفید پہاڑ پر تو اسکو چاہیئے کہ وہ اس حکم کو بجالائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ سوتی ہے اور دل جاگتاہے: واقعہ معراج کی تفصیلات کو خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا منجملہ ان تفصیلات کے جبرائیل امین کی آمد کو بھی بیان فرمایا جبکہ روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے۔ اس سے یہ عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام فرمانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ سوتی ہے دل نہیں سوتا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ جَائَتْ مَلَائِکَۃٌ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ وَھُوَ نَائِمٌ فَقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّہُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّ الْعَیْنَ نَائِمَۃٌ وَالْقَلْبَ یَقْظَانُ فَقَالُوْا اِنَّ لِصَاحِبِکُمْ ھٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوْا لَہُ مَثَلًا، فَقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّہُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّ الْعَیْنَ نَائِمَۃٌ وَالْقَلْبَ یَقْظَانُ فَقَالُوْا مَثَلُہُ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰی دَاراً وَجَعَلَ فِیْھَا مَأدُبَۃً وَبَعَثَ دَاعِیًا فَمَنْ أجَابَ الدَّاعِیَ دَخَلَ الدَّارَ وَأکَلَ مِنَ الْمَأدُبَۃِ وَمَنْ لَمْ یُجِبِ الدَّاعِیَ لَمْ یَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ یَأکُلْ مِنَ الْمَأدُبَۃِ فَقَالُوْا أوِّلُوْھَا لَہُ یَفْقَھُھَا فَقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّہُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُھُمْ اِن الْعَیْنَ نَائِمَۃٌ وَالْقَلْبَ یَقْظَانُ فَقَالُوْا فَالدَّارُ ألْجَنَّۃُ وَالدَّاعِیْ مُحَمَّدٌ ﷺ فَمَنْ أطَاعَ مُحَمَّدًا ﷺ فَقَدْ أطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ عَصٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰی مُحَمَّدًا ﷺ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ وَمُحَمَّدٌ ﷺ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ۔(رواہ البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)

ترجمہ:  حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ چند فرشتے حضور نبی اکرم  ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے جب کہ آپ  ﷺ آرام فرما رہے تھے ، ان میںکے بعض نے کہا کہ بے شک آپ (ﷺ)سورہے ہیں اور بعض نے کہا کہ بے شک آنکھ سو رہی ہے اور دل جاگ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بے شک تمہارے ان صاحب کی ایک مثال ہے تم اس کو ان کے لئے بیان کرو۔۔ان میں کے بعض نے کہا کہ وہ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا کہ بے شک آنکھ سو رہی ہے اور دل جاگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا : ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گھر بنایا اور اس میں کھانے کی چیزیں تیار کیا اور ایک دعوت دینے والے کو بھیجا، پس جس نے دعوت دینے والے کی دعوت قبول کی وہ گھر میں داخل (بھی) ہوا اور کھانے کی چیزوں میں سے کھایا بھی اور جس نے دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول نہ کی تو نہ وہ گھر میں داخل ہوا اور نہ کھانے کی چیزوں میں سے کھایا۔ ان (فرشتوں) نے کہا کہ ان کے لئے اس (مثال ) کی تاویل بیان کرو کہ وہ اسکو سمجھ رہے ہیں ، ان میں کے بعض نے کہا کہ بے شک وہ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا کہ بے شک آنکھ سو رہی ہے اور دل جاگ رہا ہے۔ پس (مذکورہ مثال کی تاویل میں )انہوں نے کہا کہ گھر جنت ہے ، دعوت دینے والے محمد (ﷺ) ہیں پس جس نے محمد (ﷺ) کی اطاعت کی تو یقینا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد (ﷺ) کی نافرمانی کی تو یقینا اس نے اللہ کی نا فرمانی کی ، پس محمد (ﷺ) لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

انبیاء اپنی مزارات میں زندہ ہیں: سفر معراج کے مراحل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر انور کے قریب سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام اپنے قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ (مدارج النبوۃ ، ص 251)۔ اس روایت سے حیات الانبیاء کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام پر چند لمحوں کیلئے موت آتی ہے پھر اس کے بعد وہ باحیات ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے بھی واضح ہوتا ہے :

عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَائِ رَضِيَ اﷲ ُعَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲ ُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ : أَکْثِرُوْا الـصـّـَلَاۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہُ مَشْھُوْدٌ تَشْھَدُہُ الْمَلَائِکَۃُ وَ اِنَّ أَحَدًا لَنْ یُّصَلِّيَ عَلَيَّ اِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلاَتُہُ حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْھَا قَالَ: قُلْتُ: وَ بَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: وَ بَعْدَ الْمَوْتِ، اِنَّ اﷲ َحَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَائِ فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ یُّرْزَقُ۔

(رواہ ابن ماجۃ،کتاب ما جاء فی الجنائز )

ترجمہ :حضرت ابو الدرداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور رسول  اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود ہے کہ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کے فارغ ہونے تک میرے سامنے اس کا درود پیش کردیا جاتا ہے۔‘‘ ابو الدرداء ؓکہتے ہیں میں نے عرض کیا : اور وصال کے بعد (بھی)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وصال کے بعد (بھی ،کیونکہ ) اﷲ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کوکھانا حرام کردیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بصیرت:مذکورہ روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بصیرت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے اندر کی چیزوں کا بھی مشاہدہ فرماتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ حضرت ابن عباس ر ضی اللہ عنہ  سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک ان دونوں کو عذاب ہوررہا ہے اور عذاب کی کوئی بڑی وجہ بھی نہیں، ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور ایک پیشاب سے احتیاط نہیں برتتا تھا۔ روای فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سبز شاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ان دونوں قبروں پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا پھر فرمایا جب تک یہ خشک نہیں ہوں گے یقینا ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔(صحیح بخاری۔ ج1)

اورایک روایت میں ہے:

عَـنْ أَبـِيْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  ﷺ قَالَ: ھَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِيْ ھٰھُنَا فَوَاللّٰہِ مَا یَخْفٰی عَلَیَّ  خَشُوْعُکُمْ وَلَا رُکُوْعُکُم وَاِنِّيْ لَأَرَاکُمْ مِنْ وَرَائِ ظَھْرِيْ۔(رواہ البخاری،کتاب الصلاۃ)

ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میرا رخ صرف یہاں ہے ،خدا کی قسم مجھ پرنہ تمہارا خشوع و خضوع پوشیدہ ہے(جو کہ باطنی کیفیت ہے)اور نہ تمہارا رکوع اور بلا شبہ یقینا میں تمکو اپنی پیٹھ پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔

عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ؓ  اَنَّ النَّبِّیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ خَرَجَ یَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی اَھْلِ اُحُدٍ صَلَاتَہُ عَلَی الْمَیِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ اِلَی الْمِنْبَرِفَقَالَ اِنِّیْ فَرَطٌ لَکُمْ وَأنَا شَھِیْدٌ عَلَیْکُمْ وَاِنِّی وَاللّہِ لأنْظُرُ اِلٰی حَوْضِیْ الْآنَ، وَاِنِّیْ أُعْطِیْتُ مَفَاتِیْحَ خَزَآئِنِ الْأرْضِ، أوْ مَفَاتِیْحَ الْأرْضِ، وَاِنِّیْ وَاللّہِ مَا أخَافُ عَلَیْکُمْ أنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِیْ وَلٰٰٰٰٰٰکِنْ أخَافُ عَلَیْکُمْ أنْ تََنَافَسُوْا فِیْھَا۔ (رواہ البخاری، کتاب الجنائز)۔

ترجمہ:حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن (قبرستان) تشریف لے گئے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد پر نماز پڑھی جیسا کہ کسی جنازہ پر پڑھی جاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بے شک خدا کی قسم! میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بے شک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا: زمین کی کنجیاں) عطا کردی گئی ہیں اور خدا کی قسم مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جائو گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم تمام ابنیاء سے زیادہ:سفر معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت المقدس پہنچے اور مسجد کے دروازے کے حلقہ کے ساتھ براق کو باندھ دیا، بعد ازاں آپ مسجد میں داخل ہوئے جہاں پر جملہ انبیاء یعنی حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ تک کی ارواح متمثل شدہ حاضر ہوئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی صلوٰۃ و سلام پیش کیا۔ پھر تمام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا امام بنایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جملہ انبیاء کی امامت فرمائی۔علماء احناف کے مطابق جب کئی حضرات اکھٹا ہو جائیں تو امامت کا حق اس کو حاصل ہوگا جو ان میں سب سے زیادہ علم والا ہوکیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات کے آخری ایام میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو امامت کرنے کا حکم فرمایا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان علمیت زیادہ تھی۔ اس کے مطابق بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جملہ انبیاء کی امامت فرمانا تمام ابنیاء سے زیادہ آپ کے علم شان کو ظاہر کرتا ہے۔ حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان علمی کو بیان کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخلوقات کی ابتداء سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے وار دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہوجانے تک ہمیں سب کچھ بتادیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق)۔ اور ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میرے دوکندھوں کے د رمیان اپنا دست قدرت رکھا یہاں تک کہ میں نے اپنے سینہ کے درمیان اس کی ٹھنڈک محسوس کی پس میں نے ان تمام چیزوں کو جان لیا جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمینوں میں ہے۔ (سنن ترمذی جلد 2)۔

امت محمدیہ کی تعداد تمام امتوں سے زیادہ: واقعات معراج میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب چھٹے آسمان پر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔ جب آپ وہاں سے روانہ ہوئے تو حضرت موسیٰ اپنی امت پر ترس کھاتے ہوئے رو پڑے۔ اور انہوں نے کہا کہ ایک شخص جو مجھ سے بعد میں بھیجا گیا جس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ جنت میں جائیں گے۔ (بخاری، جلد 1، ص 548)۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہل جنت کی اکثریت امت محمدیہ پر مشتمل ہوگی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

عَنْ بُرَیْدَۃَ رَضِيَ اﷲ ُعَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲ ُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ أَھْلُ الْجَنَّۃِ عِشْرُوْنَ مِائَۃَ صَفٍّ ثَمَانُوْنَ مِنْھَا مِنْ ھَذِہِ الْأُمَّۃِ وَ أَرْبَعُوْنَ مِنْ سَائِرِ الْأُمَمِ۔(رواہ الترمذي، کتاب صفۃ القیامۃ)

ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اہل جنت (کے) ایک سو بیس صف ہونگے ،ان میں سے اسّی (۸۰)اس امت میں سے اور چالیس(۴۰) (باقی ) تمام امتوں میں سے ہونگے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روز قیامت تمام انبیاء سے زیادہ میرے متبعین ہوں گے۔ اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔ (صحیح مسلم)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت جبرئیل امین کی نورانیت سے زیادہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی مخلوق کا احسان نہیں: امام زرقانی شرح مواہب میں روایت نقل فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کو یہ بات بتلائی کہ میں حضرت ابراہیم کے جسم مبارک میں نور تھا اور آپ کی پشت اقدس میں نورانی تجلی تھی۔ آپ جب منجنیق میں تھے (اور نمرود آپ کو آگ میں پھینکنے والا تھا) تو حضرت جبرئیل حاضر ہوئے اور کہا کہ اے رحمان کے خلیل کیا آپ کی کوئی حاجت ہے؟ تو حضرت ابراہیم نے فرمایا :تم سے نہیں۔ حضرت جبرائیل پھر حاضر ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت میکائیل بھی تھے تو حضرت ابراہیم نے پھر کہا: نہ تم سے کوئی حاجت ہے نہ میکائیل سے۔ حضرت جبرئیل تیسری بار پھر حاضر ہوئے اور کہا کہ کیا رب کی بارگاہ میں آپ کا کوئی معروضہ ہے؟ تو حضرت ابراہیم نے فرمایا اے بھائی جبرئیل خلیل کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے خلیل کی مرضی کے خلاف نہ کرے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہلوایا تو میں نے کہا جب اللہ تعالیٰ مجھے شان نبوت کے ساتھ دنیا میں مبعوث فرمائے گا اور شان رسالت اور شان مصطفائی کے ساتھ جلوہ گر فرمائے گا تو میں اپنے بھائی جبرئیل کو ان کے اس حسن عمل کا بدلہ دوں گا جو انہوں نے میرے والد کریم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ پھر میری بعثت کے بعد جب شب معراج آئی تو جبرئیل علیہ السلام میری خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ رب کی بارگاہ میں حاضری کے وقت میرے ہم سفر رہے، یہاں تک کہ وہ ایک مقام پر پہنچ کر وہیں ٹہر گئے تو میں نے کہا: اے جبرئیل کیا اس جیسے مقام پر دوست اپنے دوست کو چھوڑ دیتا ہے؟ تو جبرئیل نے عرض کیا اگر میں اس مقام سے آگے بڑھوں تو نور کی تجلیات سے جل جائوں گا۔ تب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جبرئیل کیا تہیں کوئی حاجت ہے؟ تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے پیکر حمد و ستائش صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ میں آپ کی امت کیلئے صراط پر اپنے پر بچھائوں تاکہ وہ اس پر سے (آرام کے ساتھ) گزر جائے۔ (شرح الزرقانی علی المواہب ج 8، ص198)

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے: سدرۃ المنتہیٰ سے آگے بڑھنے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا لامکاںکی سیر کیلئے تشریف لے گئے۔ یہ وہ شرف ہے جو تمام مخلوق میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ؒ فرماتے ہیں:

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے۔ سر عرش تخت نشین ہوئے

وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں۔ وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کا دیدار کیا: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر معراج میں قدرت کی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد رب تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ نجم میں فرمایا ’’آپ نے جو مشاہدہ کیا دل نے اسے نہیں جھوٹ لایا، کیا تم ان سے بحث کرتے ہو اس پر جو مشاہدہ فرماتے ہیں اور یقینا آپ نے اس جلوہ کا دو مرتبہ دیدار کیا ‘سدرۃ المنتہیٰ کے پاس‘‘ (سورہ نجم) ۔ صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے کہ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ فرمایا کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اگر مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوتا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور دریافت کرتا۔ حضرت ابوذر نے فرمایا تم کس چیز کے بارے میں دریافت کرتے تو حضرت عبداللہ بن شقیق نے عرض کیا کہ میں یہ دریافت کرتا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے؟۔ یہ سن کر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نور حق کو دیکھاہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان)۔

معراج کا اہم مقصد، زمین و آسمان کو شرف بخشاہے: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے معراج کی سیر اس طرح سے بھی ممکن تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر پر تشریف لے جانے کے بجائے رب تعالیٰ ان تمام جگہوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کردیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا مشاہدہ  فرماتے۔ جیساکہ معراج کی صبح بیت المقدس آپ کے روبرو کردیا گیا تھا۔ اور جس طرح کہ نماز کسوف کی حالت میں جنت کو آپ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ، فرفعہ اللہ لی أنظر إلیہ ما یسألونی عن شیٔ الا أنبأتہم بہ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان)۔ترجمہ: (قریش مجھ سے سفر معراج کے بارے میں سوال کرنے لگے) تو اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھاکر میرے سامنے کردیا وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی پوچھتے میں دیکھ کر ان کو بتادیتا۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنے اس مقام پر کسی چیز کواپنے مبارک ہاتھ میں لینے کا ارادہ فرمایا پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے کی جانب تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک جنت مجھ کو دکھلائی گئی تو میں نے اس سے انگور کا ایک خوشہ لینے کا ارادہ کیا (اور پھرارادہ ترک کردیا) اگر میں اس کو لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس سے کھاتے رہتے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الاذان)۔ ان روایتوں کی روشنی میں یہ عقیدہ واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج کیلئے تشریف لے جانا ان مقامات کو مشرف کرنے کیلئے تھا۔

حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ بیان فرماتے ہیں کہ بیت المقدس ہر وقت یہ دعاء کرتا تھا کہ الٰہی تمام پیغمبروں سے میں مشرف ہوچکا اب میرے دل میں کوئی آرزو باقی نہیں ہے اگر ہے تو یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک دیکھوں‘ ان کی ملاقات کے شوق کی آگ بے حد بھڑک رہی ہے۔ بیت المقدس کی آرزو پوری کرنے کیلئے بیت المقدس لے جایا گیا۔ (معراج نامہ، ص 29)۔ امام محمد بن یوسف الصالحی رحمہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ میدان حشر ملک شام میں برپا ہوگا اور معراج شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس لیجانے میں مشیت خداوندی یہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم وہاں پڑ جائیں تو کل قیامت کے روز آپ کی امت کیلئے آسانی و سہولیتیں میسر آجائیں گی۔ اور آپ کے قدمین اطہرین کی برکت کے سبب وہاں پر ٹہرنا آسان ہو جائے گا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد، ج 3، ص18)۔

الغرض واقعہ معراج سے بہت سے اعتقادی، فکری، اصلاحی گوشے اور اسرار و حکمت واضح ہوتے ہیں۔ جن کا کماحقہ احاطہ ممکن نہیں۔

شیخ الاسلام امام محمدانوار اللہ فاروقی  ؒ لکھتے ہیں:

عقدہ یہ کھلتا نہیں کہ کون ہیں اور کیا ہیں وہ

ہاں سمجھتے ہیں بس اتنا برزخ کبریٰ ہیں وہ

× رابطہ کریں