صوفیاء کرام کی نرالی شان

جب چنگیز خان اور ہلاکو خان کی فوجیں بغداد کو تاخت و تاراج کررہی تھیں، قتل و غارت گری تھی، خون بہایا جارہا تھا، اُس وقت کی بات ہے کہ ایک خراسانی بزرگ جو سلسلہ عالیہ قادریہ سے نسبت رکھتے تھے، اشارہء غیبی کے تحت ہلاکو خان کے بیٹے تگودار خان کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے تشریف لائے۔ وہ شکار سے واپس آ رہا تھا۔ اپنے محل کے دروازے پر ایک درویش کو دیکھ کر اس نے ازراہِ تمسخر پوچھا:’’اے درویش، تمہاری داڑھی کے بال اچھے ہیں یا میرے کتے کی دم‘‘؟اس بیہودہ سوال پر آپ قطعاً برہم نہ ہوئے۔ بڑے تحمل سے فرمایا:’’اگر میں جانثاری اور وفاداری سے اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کر لوں تو میر داڑھی کے بال اچھے ہیں، ورنہ کے کتے کی دم اچھی ہے جو آپ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور آپ کے لیے شکار کی خدمت انجام دیتا ہے‘‘۔

تگودار خان اس غیرمتوقع جواب سے بہت متاثر ہوا اور آپ کو مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا اور آپ کی تبلیغ سے درپردہ اسلام قبول کر لیا۔

ابوبکر الحلبی نے روایت کیا کہ ہم حضرت شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے تھے کہ اچانک وہاں سے کچھ نوجوان گزرے جو گانا بجانا کر رہے تھے، شراب پی رہے تھے، ناچ کود کر رہے تھے۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں کو غصہ آگیا اور کہنے لگے کہ ’’حضرت! ہاتھ اٹھا کر ان ظالموں کے لیے بددعا کیجئے۔ یہ نوجوان آپ کے سامنے شراب پی رہے ہیں اور ناچ گانا کر رہے ہیں۔ انہیں ادب اور حیا نہیں۔ ان کے لیے بد دعا کیجئے‘‘۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی:’’اے میرے مالک! ان کو آخرت میں بھی اسی طرح خوش رکھنا جس طرح دنیا میں خوش رکھا ہوا ہے‘‘۔(السلمی، کتاب الفتوة: 60)۔مریدوں نے جب یہ کلمات سنے تو ان کے دل بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا: حضور ہم نے بددعا کے لیے درخواست کی تھی کہ ان کا خاتمہ ہو جائے اور وہ برباد ہو جائیں لیکن آپ نے دعا دے دی۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ مسکرا پڑے اور فرمایا: آخرت میں یہ اُسی صورت خوش ہوں گے جب دنیا میں اپنے ان احوال سے توبہ کرلیں گے اور اس کی جانب رجوع کریں گے۔ پس اگر اُس نے انہیں آخرت میں خوش رکھنے کا فیصلہ کر لیا تو انہیں دنیا میں توبہ کی توفیق دے گا اور ان کی توبہ ہو جائے گی۔

علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ سلوۃ الاحزان میں بیان کرتے ہیں کہ صوفیاء کے امام اور امام اعظم کے ساتھی اور معاصر حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ دریائے دجلہ پر غسل کے لیے گئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ کپڑے اتار کر رکھے اور غسل لینے لگے۔ اچانک ایک چور آیا اور آپ کے کپڑے لے اڑا۔ جب غسل کے بعد آپ نکلے تو کپڑے غائب تھے۔ پریشان بیٹھے ہی تھے کہ چور کپڑے لے کر واپس آگیا۔ اُس نے آپ کو کپڑے دیے اور کہا کہ میرا دایاں ہاتھ جس سے کپڑے چرائے تھے وہ فالج زدہ ہو گیا ہے۔ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: میرے مولیٰ! جس طرح تو نے میرے کپڑے واپس فرما دیے ہیں اس طرح اس چور کے ہاتھ کی صحت بھی واپس کر دے۔ آپ کی دعا سے اس کا ہاتھ صحت مند ہوگیا۔

پس صوفی چوری کو نہیں دیکھتے بلکہ اُس کی پریشانی کو دیکھتے ہیں۔ یہ وہ انداز ہے جس انداز کے ذریعے صوفیاء مخلوقِ خدا کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ ان کا بولنا، کرنا اور ہر معاملہ دوسرے لوگوں سے جدا ہوتا ہے۔

× رابطہ کریں