کرامات اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کا ثبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں

اولیاء اللہ سے ظاہر ہونے والی کرامت دراصل معجزئہ نبی کا مظہر اور اسی کا فیضان ہوتی ہے، اور کرامات اولیاء سے اہل زمانہ پر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ولی جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیںاُنہی کا دین سچا اور حق ہے ،یہ جن کی نبوت کے قائل ہیں اُنہی کا قانون درست وصحیح ہے ، صالحین وبزرگانِ دین کی کرامات سے دین اسلام کی تائید وتصدیق ہوتی ہے ۔ اس امت کے اولیاء کرام کی کرامتیں دیگر امتوں کے اولیاء کرام کی کرامتوں سے زیادہ ہیں۔

قرآن سے کرامت کا ثبوت:حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بندکمرہ میں بے موسم میوے آیا کرتے تھے جبکہ وہاں لانے والا کوئی نہ ہوتا‘ جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر:37میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔اورحضرت مریم علیہا السلام نبی نہیں تھیں بلکہ ایک ولیہ تھیں۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے لشکر سے فرمایا کہ تم میں کون ایسا شخص ہے جو بلقیس کے آنے سے پہلے ان کے تخت کو میرے پاس لے آئے؟تو جنات میں سے ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا کہ آپ اپنے مقام سے اٹھنے سے قبل میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں،آپ نے فرمایا:مجھے وہ تخت اور جلد چاہئیے! تب حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت چاہی اور پلک جھپکنے سے پہلے آپ کی خدمت میں وہ تخت لے کر حاضر ہوگئے۔جیساکہ سورئہ نمل  میں مذکور ہے۔

اللہ تعالی کی عظیم قدرت سے اصحاب کہف کی یہ کرامت ہے کہ انہوں نے تین سو نو( 309)سال کا طویل عرصہ غار میں بغیر کچھ کھائے‘پئے گزارا ،ان کے جسم سلامت رہے، اور ان کے در پر رہنے والاکُتَّابھی محفوظ رہا۔ جتنا عرصہ اصحاب کہف نے غار میں گزارا اتنے عرصہ تک سورج نے اپنی روش کو تبدیل کردیا،جب وہ طلوع ہوتا تو دائیں جانب ہوجاتا اور جب غروب ہوتا تو بائیں جانب ہوکر غروب ہوتا،اس طرح سورج کی شعاعیں ان پر نہ پڑتیں۔سورج کا اپنے مقررہ نظام سے ہٹ کر اس طرح طلوع وغروب ہونا قدرتِ خدا وندی کی دلیل اوراصحاب کہف کی کرامت ہے۔

حدیث شریف سے کرامت کا ثبوت:ترجمہ:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہےمیں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں،اور میرا بندہ میری بارگاہ میں کسی چیز کے ذریعہ تقرب حاصل نہیں کیا جو اس فرض سے زیادہ محبوب ہو جو میں نے اس کے ذمہ کیا ہے ،اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ‘پھر جب میںاسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے،میں اس کی آنکھ ہوجاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،میں اس کے پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور بضرور اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو ضرور بضرورمیں اسے پناہ دیتا ہوںاور میں کسی چیز کو کرنا چاہوں تو اس سے توقف نہیں کرتا ،جس طرح مومن کی جان لینے سے توقف کرتا ہوں جبکہ وہ موت کو ناپسند کرے،اور میں اس کو تکلیف دینا گوارا نہیں کرتا۔( صحیح البخاری ،کتاب الرقاق، باب التواضع ،حدیث نمبر:6502)اس حدیث قدسی سے اولیاء کرام و صالحین امت کی عظمت وجلالت کا اظہار ہوتا ہے اوران کی کرامات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب ان کی سماعت وبصارت،کلام وحرکت میں قدرت الہی کار فرما ہے تو وہ اپنے کان سے قریب کی بھی سنتے ہیں اور دور کی بھی،اپنی آنکھ سے قریب کو بھی دیکھ لیتے ہیں اور دور کو بھی۔

× رابطہ کریں